غالب کا فلسفہ

(لکھنو ریڈیو اسٹیشن سے نشریہ، 16 فروری 42ء کو غالب کی برسی کے موقع پر) فلسفہ کے نام سے گھبرائیے نہیں۔ فلسفہ موٹے موٹے نامانوس لغات کا ثقیل، مغلق اصطلاحات کا نام نہیں۔ فلسفہ نام ہے خود شناسی کا۔ زینہ ہے خدا شناسی کا۔ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ ہمارے گرد و پیش کیا ہے؟ ہمارے جذبات کیا ہیں؟ عادات و اطوار کیا ہیں؟ خدا کیا ہے؟ ماسوا کیا ہے؟ بس یہی روز مرہ کے مسئلے ہیں، جن سے ہم کو آپ کو سب کو دو چار ہونا پڑتا ہے کبھی جان کر اور کبھی انجان۔ انہیں کو عقلی اصول پر ایک خاص نظام کے ما تحت ترتیب دے لیجئے اور لیجئے آپ فلسفی ہو گئے۔پھر غالب غریب، کینٹ اور ہیگل کے کینڈے کے تو انسان تھے بھی نہیں۔ ایک خوش باش، زندہ دل، خوش فکر، طبیعت دار آدمی، باتیں کرتے تو ذرا گہری، نظر سطح کی نہیں، عمق کی عادی، چھلکے پر پڑ کر پھسل جانے والی نہیں، مغز تک پہنچ جانے کے خوگر، سوجھ بوجھ غضب کی۔ اپنے ان حکیمانہ تجربوں، اور عارفانہ مشاہدوں کو ادا کرتے، تو کبھی پیاری نثر میں، کبھی دلآویز نظم میں، کبھی شعر کا ساز ہاتھ میں اٹھا لیتے، کبھی نثر کے مائکرو فون کو منہ لگا لیتے۔ شہرت شاعری کی زیادہ ہوگئی، ورنہ تحقیق کی زبان سے تو روایت یہ سننے میں آئی ہے کہ نظم و نثر دونوں کےماہر تھے، مالک تھے، بادشاہ تھے، نثر لکھنے بیٹھے تو قلم میں یہ قدرت کہ جب چاہا روتوں کو ہنسا دیا، جب چاہا ہنستوں کو رلا دیا۔ شعر کہنے پر آئے تو زبان میں یہ اثر کہ سننے والوں کو لٹا دیا۔ مرجھائے دلوں کو کھلا دیا! فطرت بشری کے راز دار ہی جو ٹھہرے اور حکمت و معرفت کے شیدائی۔ معنویت کے بول لطافت و ظرافت کے سروں میں الاپتے۔ ابھی آہ کا رنگ جما دیا، ابھی واہ کا نقش بٹھا دیا۔ یہی ان کی حکمت، یہی ان کا فلسفہ یہی ان کی شاعری کا پیام، یہی ان کی زندگی کا کارنامہ۔دل فطرت سے شوخ لے کر آئے تھے اور دماغ بیدار، شعر کم سنی ہی سے کہنے لگے تھے، جو رنگ طبیعت کا شروع سے تھا آخر تک رہا۔ جوں جوں سن بڑھتا گیا، پختگی آتی گئی، دنیا کی بے ثباتی، کائنات کی بے حقیقی کا نقش شروع ہی سے دل پر بیٹھ گیا تھا۔ جوانی کا زمانہ رندی و سرمستی کا ہوتا ہے، جھومتے جاتے ہیں لیکن اس بیہوشی میں اتنا ہوش رکھتے ہیں۔قطع سفر ہستی و آرام فنا ہیچ         رفتار نفس بیشتر از لغزش پاہیچکس بات پر مغرور ہے اے عجز تمنا            سامان دوا وحشت و تاثیر دوا ہیچزبان کی سلاست، ترکیبوں کی صفائی اس سن میں کیسے آ سکتی تھی، لیکن خیال کی ندرت، طبیعت کی جدت اس نو مشقی میں بھی کچھ ڈھکی چھپی نہیں ہے۔مہینے کانیا چاند ہم آپ سب ہی دیکھتے ہیں، لیکن حضرت غالب کا دیکھنا ہی کچھ اور تھا۔ حکیمانہ نظر نے دیکھا اور نکتہ پیدا کیا کہ چودہویں کا جو اتنا بڑا طباق سا چاند ہوتا ہے وہ آخر پیدا ہوتا ہے اسی منحنی، کم رو اورخیال کی طرح نازک و باریک ہلال سے۔ گویا کمال کی بنیاد، ضعف وا ضمحلال ہی سے پڑتی ہے۔بدر ہے آئینہ طاق ہلالغافلاں! نقصان سے پیدا ہے کمالمذہب کے تعدد سے، ظاہری رسوم کی سختیوں سے، اور فریقانہ غلو سے تنگ آ کر کہتے ہیں کہ سکون خاطر منظور ہے تو بس توحید سے لو لگا لیجئے۔ وحدت کی خانقا ہ میں کنج نشین ہو جائیے اور یک داں، یک بیں، یک گو بن کر رہ جائیے۔تا چند ناز مسجد و بتخانہ کھینچئےجوں شمع دل بخلوت جانا نہ کھینچئےکائنات سے انسان سبق لینا چاہے، تو ذرہ ذرہ سبق دینے کو تیار ہے۔ اس میں تاج محل اور فقیر کی جھونپڑی کی تفریق کیسی؟ حقیقت شناسی کی آنکھ کے لئے بجلی کا قمقمہ اور مٹی کا دیا دونوں ایک ہیں۔ فطرت کی مشاطہ صنعت و ربوبیت کی کنگھی دست قدرت میں لئے مانگ چوٹی ان کی بھی درست کرتی ہے ان کی بھی۔ اسی مضمون کو کہیں یوں ادا کیا ہے،محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا   یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کااور کہیں ان الفاظ میں باندھا ہے،غافل یہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاںبے شانہ صبا نہیں طرہ گیاہ کاموتی کی قدر و قیمت سب جانتے ہیں، یہ فطرت بشری کا عارف کہتا ہے کہ موتی بنتا ہے پانی کے قطرہ سے، لیکن ایسا ہی پانی کا قطرہ ہے ایک اور بھی تو ہے، موتی سے کہیں زیادہ قیمتی۔ اسے حضرت انسان آنکھوں ہی آنکھوں میں رکھتے ہیں اور باہر اسی وقت نکالتے ہیں جب چوٹ پڑ لیتی ہے، دل پر نہ سہی کم از کم جسم ہی پر سہی، سلسلہ موجودات میں جس کا جیسا ظرف ویسا ہی اس کا مرتبہ،توفیق بہ اندازہ ہمت ہے ازل سےآنکھوں میں ہے وہ قطرہ جو گوہر نہ ہوا تھافرماتے ہیں کہ بشر کے گناہ بے شک بے حد و بے شمار لیکن فطرت میں جو قدرت عصیاں، سیلان فسق، طاقت گناہ رکھ دی گئی ہے وہ تو اس سے بھی کہیں زائد ہے۔ انسان گناہ کہاں تک کرے گا، جتنے بھی کرے گا پھر بھی بہت سے چھوٹ ہی جائیں گے، کر سکتا ہوگا مگر کرے گا نہیں۔ پھر کیا جب وقت جزائے کامل کا آئے گا تو عادل حقیقی کی کریمی بندہ کی اس بناوٹ کا لحاظ بھی نہ رکھے گی؟ اس مضمون کو کئی کئی طرح ادا کیا ہے کہیں یوں،دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشکمیرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھااور کہیں یوں،نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے دادیار ب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہےاور کہیں یوں بھی،آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یادمجھ سے مرے گنہ کاحسا ب اے خدا نہ مانگرات کو شبنم پڑتے ہم نے آپ نے سب نے دیکھا ہے چمن کی زمین بھیگی پڑی ہے کہ صبح آفتاب نکلا اور اس کی کرنوں کے ساتھ وہ ساری نمی رخصت۔ اس منظر پر بھی کبھی کبھی نظر پڑی ہوگی۔ غالب کی نظر اس پر بھی گڑ گئی۔ آفتاب کا کام تو زندگی دینا ہے، نشو نما بخشنا ہے اور بعض قدیم فلاسفہ کا مقولہ ہے کہ شبنم پیدا بھی آفتاب ہی سے ہوتی ہے لیکن ادھر کرن پھوٹی، ادھر شبنم کا وجود بھی رخصت ہو گیا۔ کل نے جزو کو اپنی طرف کھینچ لیا، اپنے میں جذب کر لیا۔ ظاہر میں فنا اور واقعۃً بقا حاصل ہوگئی اور کہتے ہیں فلسفہ وحدت وجود کے اندر گم ہو کر کہتے ہیں کہ یہی حال انسان کا ہے۔ ممکن الوجود کی تو عین تمنا یہی ہے کہ واجب الوجود اس پر توجہ کرے۔ اس پر تجلی رحمت کا عکس ڈالے اور اسے اپنے اندر جذب کر لے۔ بندہ کا وجود یوں بھی تو مالک کے سامنے بمنزلہ عدم کے رہتا ہے۔پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیممیں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تکاور پھر یہی شربت ایک دوسرے گلاس میں،کیا آئینہ خانہ کا وہ نقشہ تیرے جلوہ نے کرے جو پر تو خورشید عالم شبنمستاں کامخلوق کا وجود توخود اس کی فنا کی دلیل ہے۔ وجود نہ ہو تو فنا کا عمل ہو کس چیز پر؟ مرزا فرماتے ہیں کہ بجلی کا گرنا تو سب نے دیکھا، یہ بھی دیکھا کہ بے چارے دہقان کی کی کرائی محنت سب دم بھر میں غارت ہو گئی اور جو غلہ کا انبار تھا وہ راکھ کا ڈھیر ہو کر رہ گیا لیکن دہقان ہی نے تو آخر دوڑ دھوپ کر کے اس آفت کا محل تیار کیا تھا۔ اس آگ کے لئے مسالہ تیار کیا تھا۔مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ہیولی برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کافنا کا رنگ حضرت غالب پر شروع سے غالب رہا۔ شوخیوں اور رنگینیوں کے درمیان غالب رہا، رندی اور آزاد مشربی کے باوجود غالب رہا۔ کہیں کہیں تو یہ لے ہلکی ہے۔ دھیمے سروں میں کہتے ہیں،نغمہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیئےبے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دنلیکن اکثر یہ مستقبل کا صیغہ حال سے بدل گیا ہے اور صاف صاف کہنے لگے ہیں کہ یہ وجود اب بھی نابود ہے اس کاروبار حیات کی مثل طلسمات نمود ہے، حقیقۃً معدوم اور صرف بہ ظاہر موجود ہے۔ کہتے ہیں،ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدعالم تمام حلقہ دام خیال ہےبرطانیہ میں ایک فلسفی عرصہ ہوا، بار کلے کے نام کا گزرا ہے۔ وہ بھی کچھ ایسی ہی تعلیم دے گیا ہے پھر کہتے ہیں،ہاں کھائیو مت فریب ہستیہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہےکہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں،عالم غبار وحشت مجنوں ہے سر بسرکب تک خیال طرہ لیلیٰ کرے کوئی!اور پھر کہتے ہیں، اور فلسفہ کی خشکی میں شاعری کی رنگینی پیدا کر کے کہتے ہیں،شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالملوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیںتلاش کیا جائے تو دیوان بھر میں شاید یہی مضمون سب سے زیادہ نکلے۔ خدا جانے کتنے مختلف طریقوں سے اسے پیش کیاہے۔ عجب نہیں کہ محض قال نہ ہوحال ہو۔زندگی کی تلخیوں کے تجربہ نے معتقد اس کا بھی بنا دیا تھا کہ زندگی بھر اس بند سے رہائی پانے کی کوئی صورت ہی نہیں۔ جب تک کہ انسان اس آب و گل کی دنیا میں ہے کچھ بھی کرے یہ جھگڑے بہر حال اس کا ساتھ چھوڑنے کے نہیں۔ مرزا کی آپ بیتی ان کی ذاتی نہیں نوع بشر کی آپ بیتی ہے۔ لیکن شعر کے موزوں سانچہ میں، لطیف قالب میں ادا تو انہیں کی زبان سے ہو رہی ہےقید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیںموت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوںیہی مفہوم، ردیف و قافیہ اور وزن کی تبدیلی کے ساتھ،غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاجشمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تکاور یہ عدم ہستی نما جو کچھ اور جیسا کچھ بھی موجود ہے اس کی بھی بساط کیا اور پائداری کتنی؟ایک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافلگرمی بزم ہے بس رقص شرر ہونے تکبعض ادنی فلسفیوں اور ناقص قسم کے زاہدوں کو دیکھا ہوگا، خلق سے اپنے آپ کو گویا بالکل علیحدہ کر لیتے ہیں اور ترک و تجرید کے معنی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ماں اور باپ، بھائی ا ور بہن، ہمسایہ اور ہم وطن کے حقوق کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جائیں۔ غالب کی اصطلاح میں اس کا نام ’’وحشت ہے‘‘ اور ان کا فرمانا ہے کہ اس وحشت کا مستحق تو خود اپنا نفس ہے، نہ کہ دوسرے۔وارسگتی بہانہ بیگانگی نہیںاپنے سے کر نہ غیر سے وحشت ہی کیوں نہ ہوحسد کا علاج اکثر حکمائے اخلاق نے لکھا ہے۔ مرزا صاحب کی تشخیص ہے کہ یہ مرض پیدا ہوتا ہے تنگ نطری سے اور اس لئے ان کے مطب میں اس کا علاج نظر کی وسعت ہے۔حسد سے دل ہے گر افسردہ سر گرم تماشا ہوکہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے وا ہومذہب اخلاق کی اصل اور بنیاد بہت سے حکیموں، عارفوں کے نزدیک اخلاص ہے۔ غالب بھی اسی مشرب کے پیرو ہیں۔ ان کی شریعت شعری کا فتویٰ ہےکہ وضعداری بجائے خود قابل صد قدر و مستحق ہزار داد ہے۔وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہےمرے بتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑ و برہمن کوبعض اہل باطن کا قول ہے کہ حکمت کاملہ کو منظور ہی جب یہ ہوا کہ بندہ فلاں، فلاں حدود کو توڑ دے تو اب بندہ کا اس سے جھجھکنا اور رکے رہنا خود ایک معصیت اور خود بینی ہے۔ یہ مضمون اب مرزا صاحب کی زبان سے سنیئے،جب کرم رخصت بے باکی و گستاخی دےکوئی تقصیر بجز خجلت تقصیر نہیںیہی مفہوم ایک دوسرے دلکش و موثر انداز میں،کر رہا ہوں میں اسے نامہ اعمال میں نقلکچھ نہ کچھ روز ازل تم نے لکھا ہے تو سہیعارف اور عاقل سب ہی کہتے آئے ہیں کہ نا محدود کا پورا پتہ محدود کیسے چلا سکتے ہیں اور جو مطلق ہے اسے کوئی مقید اپنی عقل و فہم کی گرفت میں کب لا سکتا ہے؟ یافت ہر ایک کی، بس اپنے مرتبہ کے لائق ہوتی ہے۔ غالب نے بھی اس حقیقت کو پایا ہے اور ذرا دیکھئے گا کس شاعرانہ بانکپن سے اسے اپنے انداز میں دوہرایا ہے۔تھک تھک کے ہر مقام پر دو چار رہ گئےتیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریںذات کے طالب کو بھلا تجلی صفات سے کب تسلی ہو سکتی ہے؟ غالب صوفیوں کی بتائی ہوئی، عارفوں کی سجھائی ہوئی اس حقیقت کو دوہراتے ہیں اور بیان میں شوخ زبانی کا پیوند لگاتے جاتے ہیں، شاید اس لئے کہ شاید سننے والے کہیں بھول نہ جائیں کہ غالب، خانقاہ کے بوریہ پر نہیں، مشاعرہ کی مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں۔دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہایاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں!عبرت کا رنگ کلام میں ہمیشہ سے موجود تھا۔ سن بڑھتا گیا، ا ور یہ رنگ پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ یہ قطعہ ارشاد ہوا، سر تا سر مرصع، مدۃ العمر کے تجربات کا نچوڑ، سارے فلسفہ حیات کا خلاصہ، رویداد زندگانی کا لب لباب، اے تازہ واردان بساط ہو اے دلزنہار گر تمہیں ہوس نائے و نوش ہےدیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہومیری سنو جو گوش حقیقت نیوش ہےساقی بہ جلوہ دشمن ایمان آ گہیمطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہےیا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہ بساطدامان باغباں و کف گلفروش ہےلطف خرام ساقی و ذوق صدائے چنگیہ جنت نگاہ و فردوس گوش ہےیا صبح دم جو دیکھئے آکر تو بزم میںنے وہ سرود و سوز نہ جوش خروش ہےداغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی            اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہےقطعہ کیا ہے گویا شاعر کا وصیت نامہ۔ اس قطعہ کا زمانہ صاحب غالب نامہ کی تحقیق ہے کہ 1820ء ہے گویا غالب کی عمر اس وقت کل 30 سال کی تھی۔ اگر یہ صحیح ہے تو کہنا چاہئے کہ غالب عین جوانی ہی میں بوڑھوں کے ہم سن ہو چکے تھے۔آخر عمر کے خطوط، عبرت اور فنا کے مضامین سے پٹے پڑے ہیں۔ 19 جون 1863ء کو یعنی اپنی وفات سے کوئی چھ سال قبل ایک ایک خط میں لکھتے ہیں،’’روح میری اب جسم سے اس طرح گھبراتی ہے جس طرح طائر قفس میں۔ کوئی شغل، کوئی اختلاط، کوئی جلسہ، کوئی مجمع پسند نہیں۔ کتاب سے نفرت، شعر سے نفرت، جسم سے نفرت۔ یہ جو کچھ لکھا ہے بے مبالغہ اور بیان واقع ہے۔’’خرم آں روز کزیں منزل و یراں بروم‘‘منزل ویراں کی ویرانی کا احساس روز بروز بڑھتا گیا۔ ایک ددوسرے مکتوب میں وفات سے ساڑھے تین چار سال قبل نومبر1865ء میں تحریر کرتے ہیں، ’’نمائش گاہ بریلی کی سیر کہاں اور میں کہاں! خود اس نمائش گاہ کی سیر سے جس کو دنیا کہتے ہیں، دل بھر گیا۔ اب عالم بے رنگی کا مشتاق ہو کر، لاالہ الا اللہ، لا موجود الا اللہ، لا موثر فی الوجود الا اللہ۔‘‘آخری زمانہ کے خطوط میں عموماً اپنا نام خاتمہ پر یوں لکھتے ہیں’’ نجات کاطالب غالب۔‘‘، ’’مرگ ناگاہ کا طالب، غالب۔‘‘ اور ایک آخری خط کی بالکل آخری سطریں یہ ہیں،’’زندہ ہوں، مردہ نہیں، بیمار بھی نہیں، بوڑھا، ناتواں، مفلس، قرضدار، کانوںکا بہرہ، قسمت کابے بہرہ، زیست سے بے زار، مرگ کا امیدوار غالب۔‘‘ جوانی میں کبھی یہ شعر کہا تھا، زبانوں پر آج تک چڑھا ہوا ہے اورمعنی خدا معلوم کیا کیا لئے جا رہے ہیں۔ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت غالبؔدل کے خوش رکھنے کو لیکن یہ خیال ا چھا ہےاردو کے اس بہترین غزل گو کی زندگی بجائے خود ایک غزل تھی، اور اس غزل کا مطلع آپ نے ابھی سن لیا ہے۔ اب مقطع بھی سن کر فاتحہ خیر کے لئے ہاتھ اٹھا دیجئے۔ حالی کی روایت ہے کہ آخر وقت بار بار اپنے اس شعر کو پڑھا کرتے۔دم واپسیں بر سر راہ ہےعزیز و اب اللہ ہی اللہ ہے
حاشیہ
(1) تلمیح ہے قرآن پاک کے مقاماً محموداً کی جانب۔