لقمان حکیم کون تھے؟ جن کا ذکر قرآن میں بھی کیا گیا۔(حصہ اول)

 حضرت لقمان کے بارے میں صحابہ کرام اور قدیم ائمہ عظام کی آرامیں اختلاف ہے۔ بعض شخصیات نے انھیں نبی اور دیگر نے ولی قرار دیا ہے۔ البتہ ان کی حکمت عربوں کے دورِ جاہلیت میں بھی مسلّم تھی اور اسلام میں اس سورت کی وجہ سے ان کی شخصیت اور حکمت کو حکم ربانی نے نصّ صریح کے ذریعے سند عطا فرمادی۔ اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے؟
سیدمودودیؒ نے حضرت لقمان کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:’’لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم ودانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ شعرائے جاہلیت، مثلاً امرؤالقیس، لبید، اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں ان کا ذکر ملتا ہے۔ اہلِ عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینہ کا اولین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوا وہ سوید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لیے مکہ گیا۔ وہاں حضورصلی اللہ علیہ وسلم اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہوں پر جاجا کر دعوت اسلام دیتے پھر رہے تھے۔ اس سلسلہ میں سُویدنے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنی تو اس نے آپؐ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کررہے ہیںایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپؐ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجلہ لقمان۔ پھر آپ کی فرمایش پر اس نے اس مجلہ کا کچھ حصہ آپ کو سنایا۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بہت اچھا کلام ہے، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلاشبہ مجلہ لقمان سے بہتر ہے۔ (سیرۃابن ہشام، ج۲، ص۶۷-۶۹، اُسدالغابۃ، ج۲،ص۳۷۸)۔ 
مورخین کا بیان ہے کہ یہ شخص (سُوَیدبن صامت) مدینہ میں اپنی لیاقت، بہادری، شعروسخن اور شرف کی بنا پر ’’کامل‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدت بعد جنگ بُعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہوگیا تھا۔
تاریخ کے اعتبار سے لقمان کی شخصیت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کوئی مدَوّن تاریخ تو موجود نہ تھی۔ معلومات کا انحصار ان سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سیکڑوں برس سے چلی آرہی تھیں۔ ان روایات کی رُو سے بعض لوگ لقمان کو قومِ عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے۔ مولانا سیدسلیمان ندویؒ نے انھی روایات پر اعتماد کر کے ارض القرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قومِ عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہلِ ایمان حضرت ہودg کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انھی کی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ وتابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا۔ یہی قول حضرت ابوہریرہ، مجاہدؒ، عِکرِمہؒ اور خالد الربعیؒ کا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریb کا بیان ہے کہ وہ نوبہ کا رہنے والا تھا۔ سعیدبن مسیبk کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا۔ 
یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانے میں عموماً حبشی کہتے تھے اور نوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے۔ معنی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر رَوْض الانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نوبی تھا، لیکن باشندہ مَدین اور اَیلَہ (موجودہ عقبہ) کے علاقے کا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی۔ مزید براں سُہَیلی نے بھی تصریح کی ہے کہ لقمانِ حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں۔ (روض الانف، ج۱،ص۲۶۶۔ مسعودی، ج۱،ص۵۷، بحوالہ: تفہیم القرآن، ج۴، ص۱۳-۱۴)۔
سورۂ لقمان کے دیباچے میں سیدمودودیؒ تحریر فرماتے ہیں: 
    اس سورت میں لوگوں کو شرک کی لغویت ونامعقولیت اور توحید کی صداقت ومعقولیت سمجھائی گئی ہے، اور انھیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم خداوند عالم کی طرف سے پیش کررہے ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہرطرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کیسے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہیں۔ 

    اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیارِ عرب میں پہلی مرتبہ ہی اُٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو۔ پہلے بھی جو لوگ علم وعقل اور حکمت ودانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمدصلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں۔ تمھارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گزر چکا ہے جس کی حکمت ودانش کے افسانے تمھارے ہاں مشہور ہیں، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو، جس کا ذکر تمھارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں۔ اب خود ہی دیکھ لو کہ وہ کس عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دیتا تھا۔ (تفہیم القرآن، ج۴، دیباچہ سورۂ لقمان، ص۶)

 

 

لقمان حکیم کون تھے؟ جن کا ذکر قرآن میں بھی کیا گیا۔(حصہ دوم)

متعلقہ عنوانات