یوم آزادی منانا چاہیے پورے جوش و خروش سے منانا چاہیے مگر یہ یاد رکھنا چاہیے

کرم دین کا سفر بہت ہی لمبا اور ہلاک کر دینے والا تھا، ٹرین لاہور اسٹیشن پر کیا پہنچی لوگ نہیں، لاشیں اتاریں گئیں۔ ٹرین کے فرش کا رنگ لال ہو چکا تھا، کرم دین میں ابھی کچھ سانسیں باقی تھیں، مگر اسے بھی لاشوں کے ساتھ لاش سمجھ کر اتارا گیا، رضا کاروں نے کرم دین میں جان کے آثار دیکھے تو اسے مردہ لوگوں سے الگ کر دیا۔ کرم دین  اوندھے منہ سر زمین پاکستان پر سجدہ بحضور خدا بجا لایا کہ اس نے بالآخر اپنی مسجدکو حاصل کر لیا  ، وہ مسجد جس کا خواب وہ پچھلے بیس برس سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے خدا سے دعا مانگی تھی کہ ’’مالک ! میں جب تک اپنی مسجد کو نہ چوم لوں میری جان نہ لیجیے‘‘ دعا قبول ہوئی تھی، اب مسجد چوم لی گئی ، کرم دین کی سانسیں رکنے لگیں ، مگر اس کے چہرے پر بشاشت تھی جیسے وہ مر نہیں رہا زندہ ہو رہا ہو۔ اسے اپنی نسلوں کا روشن مسقبل نظر آ رہا تھا۔  گو کہ اس نے اپنا تمام خاندان قربان کر دیا تھا مگر وہ کامیاب تھا ، وہ کامیاب تھا کہ اس کے خواب کی تعبیر مکمل ہو چکی تھی وہ کامیاب تھا کہ اس کا سر  اس کی مسجد کی گود میں تھا ، وہ کامیاب تھا کہ اس کی آخری سانسیں پاک سر زمین پر نچھاور ہو گئیں۔  اس کے چہرے کی بشاشت میں چند افراد کی موت کا غم نہیں لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگی کی نوید تھی۔ 

کر م دین کی سانسیں رک گئیں ، دوبارہ اسے زندوں سے الگ کر کے مردہ لوگوں  کے ساتھ ملا دیا گیا، وہاں سارے ہی کر م دین تھے، سب ہی اپنا سب کچھ قربان کر کے آئے تھے۔ بچ جانے والے بھی کیا بچے تھے، یتیم بچے تھے، بیوائیں بچیں تھیں، بے اولاد بچے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی خاندان پورا نہ رہا بلکہ کچھ تو خاندان ہی نہیں رہے ۔  لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر لاکھوں لوگ قر بان ہو گئے۔ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے ہزاروں خاندان کٹ گئے۔ مگر ہو ا کیا۔۔۔۔۔؟
14اگست ہم ہر سال پورے جوش و خروش سے مناتے ہیں اور اپنے اجداد کی قربانیاں بھول کر مناتے ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ہم نے یہ ملک چوروں لٹیروں اور اسلام بیزار لوگوں کے حوالے کیا ہوا ہے۔ ہمیں احساس نہیں ،کسی بھی کرم دین کا احسا س نہیں ، کسی بشریٰ ، فاطمہ ، سکینہ کا احساس نہیں ۔  ہمارا سیاسی نظام پراگندہ  ہے ہمیں کوئی فکر نہیں، ہماری معاشرتی اقدار ختم ہو گئیں ہمیں کوئی دکھ نہیں ، ہمیں کوئی غم نہیں ہم نے معیشت میں سود  اور جھوٹ کو جگہ دی ہوئی ہے۔  ہمارا میڈیا ، ہمارے بازار عریانیت سے بھر گئے ہیں ہمیں احساس نہیں ہوا ، ہماری بہنیں ، زینت دکھا دکھا کے اور اترا اترا کے بازاروں کا رخ کرتی ہیں ہمیں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ ہماری مسجدوں میں منبر کے رکھوالے بھوکے سوتے ہیں ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ ہم اپنے کند ذہن بچے مسجد اور مدرسے کے حوالے کرتے ہیں اور ذہین بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں مگر ہمیں شرم محسوس نہیں ہوتی۔ ہم ووٹ کی مہر لگاتے وقت غلیظ ترین امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں ہمارے ہاتھ نہیں کانپتے،  ہم سینما گھروں اور قحبہ خانوں کی طرف دوڑ کے جاتے ہیں ہمارے پائوں نہیں ڈگمگاتے۔ ہم اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کرتے ہیں ، ہم دھاڑی کو دہشت گرد سے منسوب کرتے ہیں ، ہم مدارس کو جہالت کی فیکٹریاں کہتے ہیں ، ہم کیسے انسان ہیں؟ کیسے مسلمان ہیں ؟ کیسے پاکستانی ہیں؟ آج کوئی کر م دین آسمان سے نیچے جھانکتا ہو گا ، دنیا پر اپنی مسجد کو تلاش کرتا ہوگا لیکن ہر روز ہی اداس لوٹ جاتا ہو گا ، اسے اپنی مسجد کہیں بھی نظر نہیں آتی ہو گی اسے اپنی نسلوں کے دونوں جہانوں کا محفوظ مستقبل کہیں نہیں ملتا ہو گا۔ 
ہم نے آزادی لی اپنے اندر خودی اور خوداری پیدا کرنے کے لیے مگر ہم پھر سے غلام ہو گئے، پھر سے ہماری نسلیں گروی رکھی جا چکی ہیں، ہمارا نصاب ہمارا نظام آج بھی کل کی طرح محتاج ہے، ہم اپنے بچوں کو یہ بتاتے ہوئے کیوں ڈرتے ہیں کہ بیٹا ’’ ہم بزدل ہیں ہم نے اپنے آباء کے خون کے ساتھ غداری کی ہے؟ یہ ملک جو ہم آج تمہیں دے کے جا رہے ہیں یہ ایسا نہیں ہے جیسا ہمیں ہمارے اجداد دے کر گئے تھے۔‘‘
 ہم تو اپنے بچوں کو دو قومی نظریے کا مفہوم نہیں سمجھا پاتے ،  ہمیں انہیں غلامی کی تشریح نہیں سُنا پاتے، ہم چاہتے ہیں وہ غلام رہیں اور انہیں اس غلامی کا احساس بھی نہ ہو۔  ہماری تہذیب ، ہماری تقافت، ہماری معاشرت ، ہماری معاشیا ت سب غلام ہیں ۔ ہم اپنے خاندانی نظام میں خود وہ دراڑیں ڈال رہے ہیں جس کے اثرات میں آج مغرب میں ڈی این اے ٹیسٹ کی لیب گلی محلوں میں گھومتی ہے۔ 
ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ اپنے تشخص کا دارک کرنا ہو گا، اپنے اجداد کی قربانیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی، کتنے کرم دین اس مسجد کی آروز میں خود کو قربان کر گئے اس کی گنتی پھر سے کرنی ہو گی۔ یوم آزادی منانا چاہیے پورے جوش و خروش سے منانا چاہیے مگر یہ  یاد رکھنا چاہیے کہ ہم یہ دن جس وجہ سے منا رہے ہیں کیا آج ہم اس کے حقدار بھی ہیں ، اگر ضمیر سے کوئی آواز آئے اگر آپ کے اندر کا کرم دین بار نکل آئے ، تو اپنے آپ کو اپنے معاشر ے کو اور اپنے ملک کو بدلنے کی کوشش میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ووٹ سے لے کر احساس ذمہ داری تک، اجتماعی امور سے لے کر انفرادی امور تک ہر موڑ پر اپنا محاسبہ کریں۔ ہمارے شہروںکے نامزد میئر مجرم ہوتے ہیں وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور ہم یہ بات جانتے بھی ہیں، پھر بھی انہیں ووٹ دیتے ہیں۔  اپنے وطن کو اندھیروں میں ہم نے خود ڈالا ہے اور اب اس کے لیے سحر کی نوید بھی ہم ہی ہیں۔  یقین کیجیے آج بھی کوئی کرم دین پاکستان کی طرف دیکھتا ہوگا تو یہ سوچتا ہو گا کہ۔ ہم نے اپنی جانیں محض ایک زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں دیں بلکہ ہماری مطمع نظر ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست تھی جس میں ہماری نسلیں  مسکراتی رہیں ۔ اور یہ وطن  دونوں جہانوں کے لیے ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہو۔       
یہ آزادی کا جشن میرے تمام عزیز پاکستانیوں کو مبارک ہو ، مگر اس جشن میں لاکھوں شہدا کی قربانیوں کو بھولنا، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ کے نعرے  کو بھولنا، دو قومی نظریے کو پامال کرنا ، مسجد وں سے زیادہ سینمائوں کو آباد کرنا، اخوت اور بھائی چارے کی جگہ فرقہ پرستی اور شدت پسندی کو فرغ دینا  اور اس جیسی اور تمام چیزیں اگر ہم ترک نہیں کرتے تو یقین کریں ، ہم یہ دن منانے کے لائق نہیں ہیں ۔ کیونکہ پھر ہمیں آزادی حاصل نہیں ہوئی ۔ ہم ابھی غلام ہی ہیں ۔ اس دن ہمیں یہ گرہ باندھنی ہو گی کہ ہم خود کو غلامی سے آزاد کریں گے اور  وہ تمام وجوہ جن کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا تھا ان پر عمل پیرا  ہوں گے۔ اور اپنی نسلوں کے لیے ایک ایسا وطن بنا دیں گے جو دونوں جہانوں کے لیے ان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہو۔