حضورؐ بحیثیت معلّمِ اِنسانیت :یوم تکریم اساتذہ کے موقع پرزبردست تقریر

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے میط میں حباب
عالمِ آب وخاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرّئہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
لَقَدْمَنْ اللہ َعَلیَ الْمُومِنِیْنِ اِذْبَعَثَ فَیْھِمْ رَسُوْلََا مِنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِیْھمِْ وَیُعَلِّمُھُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَوَاِنْ کَانُوْ امِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالِِ مُبِیْنَo
(درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیاہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھا یا جو اس کی آیات انہیں سناتاہے۔ ان کی زندگیوں کو سنوارتاہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتاہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ )
معزّز سامعین ! یہ آیت حضوررحمت عالم، فخربنی آدم حضرت محمدّ مصطفیٰ ﷺ کے معلم انسانیت ہونے کا احسان ایک حسین پیرائے میں بیان کررہی ہے۔ تلاوتِ آیات قرآنی ،تعلیم کتاب وحکمت اور تزکئیہ نفوس انسانی آپؐ کی زندگی کا نصب العین تھا اور اس نصب العین کی تشکیل آپؐ نے جس حسن وخوبی سے کی۔ وہ تاریخ انسانی کے ماتھے کا وہ جھومرہے جس کی آب وتاب خورشیدِ عالمتاب سے زیادہ درخشاں اور ماہِ چہاردھم سے زیادہ حسین اور دلکش ہے۔ آپؐ نے باطل کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں علم کی قندیلیں روشن کیں۔ ظلمت کدئہ دہر میں علم وعرفان کے فانوس جلائے، کفر وشرک اور جاہلیت کی تاریکیوں کو نورِ ربانی سے کافورکردیا۔ ایک اجڈاور تہذ یب و شائستگی سے نا آشناقوم میں سے وہ اَئمئہ ہدایت اٹھانے جنہوں نے بزمِ عالم کی تقدیریں بدل کر رکھ دیں۔
صدرگرامی! آپؐ کی تعلیمات نے زندگی کے ہر سعبے کو حسنِ ازل کی دلآویزیوں سے مالامال کردیا۔ معاشرت کو بے حیائی، عریانی ، فحاشی اور دیگر غلاظتوں سے پاک صاف کرکے حیاداری اور عفت مآبی کی قبائیں پہنادیں۔ تہذیب اور ثقافت کو تمام آلائشوں سے مصفّا کرکے سرمدی انوارسے پرنورکردیا۔
معیثت میں سرمایہ داری اور جاگیرداری کے استحصال اور جبر کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں۔ دولت کو گردش دے کر معاشرے سے غربت، افلاس اور نکبت کے بھوتوں کو جوتے مارمارکر بھگادیا اور بندئہ مزدور کے تلخ اوقات کو شیرینی حیات سے ہمکنار کردیا اور سیاست کو دجل وفریب اور مکروریا کے ہتھکنڈوں سے دورلے جاکر صدق وصفا اور ایفائے عہد کے تختِ جلال پر متمکن کردیا۔
آپؐ کی تعلیمات سے ایک ایسا انسان طلوع ہوا جس میں جلال اور جمال کا ایسا حسین امنزاج تھا کہ ایک طرف وہ طاغوتی لشکروں کو شکستِ فاش دیتاہوا ملک پر ملک فتح کرتاچلاگیااور دوسری طرف ملکوتی صفات سے جہان کو گہوارئہ امن وامان اور رشدوہدایت کا پیکر حسین بناتاگیا۔ محمودایازایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔ آقاوغلام کی تمیز آٹھ گئی۔ اسودواحمزکا امتیاز ختم ہوگیا۔ عربی وعجمی ایک رنگ میں جلوہ گرہوگئے۔ عصبیتوں کے گلے پر چھری چل گئی۔ نسلی تفاخر ملیامیٹ ہوگئے۔ لونی ولسانی رعونت سرنگوں کردی گئی اور انسانیت کی بربادبستی کا ئنات کی پہیم نوازشوں سے گہوارئہ خلدِبریں بن گئی۔ 
ذوقِ نظرعطاہواذراتِ ریگ کو    موجِ عمل اٹھائی سرابِ جمودسے

انسانیت کو تونے مقامِ یقین دیا
پیچیدہ عقدہ ہائے خردکی کشودسے
سامعین کرام۔ آپؐ نے گرہوئے انسان کو اوپر اٹھایا اور عرشِ عظمت پر جلوہ طراز کردیا۔ غلامی کا ایک ایک بندھن کاٹ کر غلاموں کو آزادی کے خلعت فاخرہ سے سرفراز کردیا۔ عورت کو نیلام گھروں سے نکال کر عصمت وعفت کے قلعوں میں محفوظ کردیا۔ اسے حقوق واختیارو اختیارات کا تاج پہنا کرگھر کی ملکہ بنادیا اور جنت کو اس کے پائوں تلے رکھ کر اولادِ آدم کو اس کا گرویدہ اور اطاعت شعارکردیا۔
وہ جو پردانوں کی ہر بزم میں جاشمع بنی
شمعِ خانہ کا مقام اس کو دلانے والے
وہ جو بازیچہ تفریح تھی ہر کوچے میں
اس کی عصمت کو درندوں سے بچانے والے
جنابِ صدر ! معلم انسانیت کی تعلیمات کے کمال دیکھیے۔ اونٹوں کے چرواہے اور بھیڑ بکریوں کے رکھوالے محدّث اور ایسے فقیہہ بنے کہ ان کے علوم بے پایاں سے ایک دنیا فیضیاب ہوئی۔ وہ قرآن کے مفسّر، زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے والے فلاسفر، قوانینِ حیات کو جاننے والے اور انہیں چلانے والے جج، حکمرانی کے اصول وضوابط بنانے والے مقنّن،حیات انسان کے رموزوغوامض سمجھنے والے دانائے روزگار، قطار اندر قطاراس طرح نظرآرہے ہیں جیسے کہ آسمان کی وسعتِ بے کراں میں ستارے جگمگ جگمگ کررہے ہوں۔
حضورؐ کا ارشادگرامی ہے!
’’ میرے صحابی ستاروںکی مانند ہیں تم جس کی پیروی کروگے راہِ راست پاجائوگے۔ ٗ ٗ
صدرِ گرامی! اب اس تاریک دور میں جبکہ انسانیت غولِ بیابانی کے پنجہ استبداد میں کراہ رہی ہے ۔ حضورؐکی تعلیمات ہی اسے ان مظالم سے رہائی دلاسکتی ہیں ۔آئیے اپنے پیارے دیس میں حضورؐ کے لائے ہوئے نورِ سرمدی سے تاریکیوں کے عفریتوں کو بھگائیں اور صبح نورسے جہان کو پرانوار کردیں!
حضورصلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم۔

پھر ترے ابرِ کرام کی ہے یہ کھیتی پیاسی
پھر ترستے ہیں تجھے میرے زمانے والے
            (۲۱؍اکتوبر ۱۹۹۰ء)
 

متعلقہ عنوانات